Shujaat Kamal |
کہ اگر وفاقی حکومت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بناتی ہے تو اس فیصلے کو ملکی مفاد میں تسلیم کیا جائے ، خبر کی شہ سرخی سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاق جی بی کو آیینی حقوق دینے میں کتنا سنجیدہ ہے ، خیر یہ تو وقت ہی بتاۓ گا کہ کیا کچھ ہونے والا ہے لیکن ہمیں کی حوالوں سے ہوشیار رہنا ہوگا . سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اگر وفاقی حکومت علاقے کو عبوری صوبہ بناتی ہے تو ہمیں کیا ملے گا. قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہماری نمائندگی ہوگی یا نہیں. این ایف سی ایوارڈ میں ہمارا حصّہ ہوگا یا نہیں. ہم بھی پاکستان کے تمام اداروں میں دیگر شہریوں کی طرح اپنے کو مکمّل پاکستانی شہری کہلاسکیں گے ؟ اگر ان چند سوالوں کا جواب ہاں میں ہیں تب بھی میرے خیال میں یہ ایک پیکیج ہی ہوگا اور اس کو ہم منزل کی طرف دوسرا قدم ہی سمجھیں گے . کسی بھی طرح نامکمّل پیکیج نیا بحران پیدا کردے گا. وزیر اعلئ حفیظ الرحمان کے حالیہ بیان 'جس میں ان کا کہنا تھا کہ وفاق جی بی میں پچیس دنوں میں نیا نظام نافذ کرے گا ' سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاق چین کے دباؤ کے باوجود خطّے کو کوئی آیینی صوبہ بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی . پاک چین اقتصادی راہداری گلگت بلتستان کو حقوق دئیے بغیر بہت مشکل دکھائی دیتا ہے . مجھے تو ڈر ہے کہیں یہ منصوبہ بھی عالمی پابندیوں اور اعتراضات کی نذر نہ ہوجاییں .کہیں چین جیسے ترقی یافتہ اور دوست ملک کے ساتھ دیرینہ تعلقات وفاق کی گلگت بلتستان کونظرانداز کرنے کی وجہ سے داؤ پہ نہ لگ جائیں. ٤٦ بلین ڈالر کا یہ بڑا منصوبہ بھارت سمیت پوری دنیا کی نظر میں ہے ، لہذا عوام کی فلاح کے لئے نہیں تو کم از کم اس بڑے منصوبے کی مستقبل کے لئے ہی خطّہ جی بی کو آیئنی چھتری تلے لانے کے لئے کام تیز کرنا ہوگا .افسوس کی بات یہ ہے کی ہمیشہ اس خطّے کو کشمیر کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور یہ عمل آج بھی جاری ہے ، حقوق کی بات نکلتے ہی کشمیر کے رہنماؤں کی نفرت آمیز بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے . اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق کشمیر کا مسلہ عوامی ریفرنڈم کے مطابق ہی حل ہوگا تو اس ریفرنڈم میں ہمیں بھی کشمیری بن کر حق راۓ دہی کے استعمال کے لئے آج تک بغیر حقوق اور بغیر کسی قومی شناخت کے رکھا گیا ہے . یہ منطق تو میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں کشمیریوں اور گلگت بلتسنانیوں کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے لئے نفرتیں ڈالی جارہی ہیں ..؟؟ آخر کب تک؟؟ اتنا پسماندہ ہمیں رکھا گیا کہ آج تک کوئی اچھی یونیورسٹی تک میسّر نہیں ہیں ، نہ بینظیر یونیورسٹی بنی اور نہ بلتستان یونیورسٹی بنتی دکھائی دیتی ہے ، سب محض اعلانات ہی ثابت ہوۓ . ہمارے چند مقامی سیاستدانوں کو ہمارے اپنے مستقبل اور مسائل سے زیادہ کشمیر کے مسئلے سے لگاؤ ہے.ان کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل ہمیں بے آیین اور حقوق سے محروم رکھنے میں ہیں. بھلا کسی خطّے کو حقوق دینے سے کشمیر کا کیا تعلّق ؟؟ آینی حقوق کے حوالے سے بلآیی گئی آل پارٹیز کانفرنس بھی موجودہ صوبائی حکومت کی کمزوری کی بین ثبوت ہے کیوں کہ یہی اسمبلی چند سال پہلےآیئنی صوبے کی قرارداد پاس کرچکی ہے انکو چاہیے تھا کہ وہی قرارداد آیینی حقوق کمیٹی کے سامنے رکھتے!سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی میں ہماری نمائیدگی بھرپور انداز میں ہونی چاہیے نہ کہ صرف سر ہلاتے رہیں اور اپنے فیصلے ہم پر تھوپتے رہیں .کبھی وفاق سے مطالبے کرنے کا وقت آتا ہے تو کبھی منوانے کا وقت بھی ضرور آتا ہے اور وہ وقت آچکا ہے ،یہ حقوق کے لئے یک زبان ہوکر آواز بلند کرنے کا وقت ہے. جب چائنا جیسے مالدار ملک کو اپنے ایک منصوبے کے مستقبل کا اتنا فکر ہے تو ہمیں بھی بیس لاکھ لوگوں کے مستقبل کا فکر کرنا چاہیے ، صوبے کے حوالے سے آدھا کام اگر چائنا کے مطالبے پر ہوجاتا ہے تو باقی ماندہ کام ہمیں خود کرنا ہوگا ہمیشہ ددوسروں کے رحم و کرم پر حقوق کی بھیگ مانگنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے . نہیں تو اس اسمبلی کی عمارت سے عوام کا کیا لینا دینا ؟ جو نہ لوگوں کو سیکورٹی دے سکتی ہے نہ کرپشن کا خاتمہ کرسکتی ہے ؟ ہاں اپنی تنخواہیں بڑھانی ہے تو قرارداد لے کے آتی ہیں اور فوراً نوٹیفکیشن جاری ہونے کے ساتھ عملدرآمد بھی ہوجاتی ہے . چلیں لوگوں کی نظریں اس وقت آیینی کمیٹی اور صوبائی حکومت پہ جمی ہوئی ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کا یہ دیرینہ مسئلہ کیسے حل کرتے ہیں یا مزید پیچیدہ بناتی ہے .!