Tuesday, 12 January 2016

گلگت بلتستان کے طلباءمیں خود اعتمادی کی کمی.


Shakeel Danish

گلگت بلتستان کے طلباءمیں خود اعتمادی کی کمی.

کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ زندگی ایک گاڑی جیسی ہے  جو محنت اور لگن  کے پہیوں  پر چلتی  ہے مگر سفر اس وقت تک نامکمّل ہے  جب تک اس میں خود اعتمادی کی ایندھن نا ڈالی  جاییں . ہر کوئی اس بات کا معترف ہے کہ کوہ ہمالیہ اور قراقرم  کے  بلند و بالا  اور جنّت نظیر  وادیوں کے مکین  قابلیت  ، ذہانت  اور  بہادری میں  دنیا کے کسی قوم  سے پیچھے نہیں . مگر اس قوم کی بدقسمتی  یہ ہے کہ اس کے اطراف میں خود اعتمادی کی شدید کمی ہے .کسی قوم کی ذہانت ، قابلیت  اور دوسری صفات اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہوا کرتی جب تک اس قوم کے لوگوں میں خود اعتمادی  نا ہو اور اپنے آپ پر بھروسہ نہ ہو .
گلگت بلتستان کے طلباء میں خود اعتمادی کی پہلی اور بنیادی وجہ ان پڑھ والدین ہیں .ہمارے والدین اول تو ان پڑھ ہوتے ہیں یا پڑھے لکھے ہیں بھی تو واجبی (خصوصاً ماں ) .ان پڑھ والدین یہ نہیں جانتے ہیں کہ خود اعتمادی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، وہ  چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر  بچے کو معاف کرنے کے بجاے ڈانٹتے ہیں اور  طرح طرح سے اسے ڈراتے ہیں ،اسطرح بچے کی خود اعتمادی کا زوال گھر سے ہی شرو ع ہوتا ہے.
گھر کے بعد اسکول کی باری آتی ہےجہاں کم تعلیم یافتہ  اور نالائق اساتذہ سے بچوں کا پا لا پڑتا ہے .یہ اساتذہ اپنی ناقابلیت کو چھپانے کے لیے بچوں کو مختلف سزائیں دیتے ہیں اور اسطرح بچے کا اعتماد  پھول کے پتّوں  کی طرح جھڑجاتے ہیں اور اسطرح بچے کی مستقبل پر خزاں کا با دل چھا  جاتا ہے .ہمارے سکولوں میں خصوصا  گوورمنٹ سیکٹر میں ٨٠ (%80)فیصد  اساتذہ ایسے ہیں جن کو یہ بھی نہیں پتا کہ یونیورسٹی کیا ہوتی ہے اور ان میں سے  ٥٠ (%50)فیصد ایسے ہیں جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایک کالج اندر سے کیا ہوتا ہے یعنی یہ لوگ بغیر کالج،یونیورسٹی کئے کسی غیبی امداد کے ذریعے گوورمنٹ سکولوں کے استاد بن گئے اور قوم کے نسل تباہ کرنے میں لگے ہوے ہیں.اور پوری قوم تماشہ دیکھ رہی ہے .میرا آپ قاریین سے یہ سوال ہے کہ کیا یہ بھیانک صورتحال ہماری ملی موت کا سبب نہیں بنے گی ؟.ایسے میں طالب علموں میں خود اعتمادی کی بات کرنا عبث ہے .
طلبہ میں خود اعتمادی کے فقدان کی تیسری بڑی وجہ ہمارا معاشرہ ہے جو اچھے لوگوں کی تعریف کم اور برائی زیادہ کرتا ہے .جب کوئی آدمی اچھا کام کرتا ہے اور اس کے صلے میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو وہ خوف اور فرسٹر یشن اور بے اعتمادی کا شکار ہوجاتا ہے اور قوم مزید تنزلی کی طرف چلی جاتی ہے  کیونکہ
              افراد کے ہاتھوں میں ہیں اقوام کی تقدیر       ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستا را
اعتماد کی کمی کی وجہ سے ہم ابتداء سے ہی زبوں حالی کا شکار رہے ہیں اور اس بات کی واضحاور کھلی دلیل یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ستر سال بعد بھی ہم اپنے آپ کو پاکستانی تسلیم نہیں کرواسکے کہ ہم بھی پاکستان کے شہری ہیں اور برسوں سے آیئنی حقوق کے لئے رورہے ہیں کہ کوئی مسیحا  آئے اور ہمیں اپنا حقوق دلائیں .دوستو !کوئی مسیحا نہیں آئےگا ہمیں اپنی تقدیر خود بدلنا ہوگی ،اگر ہم کسی اور پر بھروسہ کر کے منتظر فردا رہینگے تو معاملہ اور بھی گھمبیر ہوتا چلا جاےگا  ، بقول اقبال ر ح
اپنی مٹتی پہ بھی چلنے کا سلیقہ سیکھو            سنگ  مر مر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے
اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹیں تو ہم جان  سکیں گے کہ بہت سے قوموں کا گراف مایوسی ، نشہ ، بے اعتمادی ،بے روزگاری  اور زبوں حالی میں ہم سے پیچھے تھا مگر وہ آج کامیاب ہیں .چین کی مثال لیجئے .یہ افیون چیوں کا ملک کہلاتا تھا .لیکن موزےتنگ نے اسکی تقدیر ایسی بدل کر رکھ دی کہ چین اب سائنس اور ٹیکنولوجی کے میدان میں پوری دنیا کی امامت کررہا ہے .انھوں نے چالیس سالوں میں کی ملین لوگوں کو روزگار فراہم کئے . یہ سب کیسے ممکن ہوا ؟.اعتماد کی بدولت کیوں کہ موزےتنگ کہا کرتے تھے  

"Rely on your own resources"
اگر چاہیں تو ہم بھی اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ایسی قوم بنسکتے ہیں کہ دنیا ہماری مثال لیں .دوستو !خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے آپ ان مشاہیر عالم کی حالت زندگی کا مطالعہ کریں کہ جنہوں نے غربت ،وسائل کی کمی ،معاشی چیلنجز اور سیاسی اختلافات کے باوجود ایسے کارہاۓنمایاں انجام دے کی تاریخ پر ثبت ہوگئےاور سنہری حروف پر لکھے جانے کے قابل ہوگئے . نیلسن منڈیلا ،ابراہیم لنکن ،مارٹن لوتھر کنگ ،علامہ اقبال اور امام خمینی ایسے ستارے ہیں کہ جنھوں نے مشکلات کے بڑےبڑےپہاڑوں کو بلند ہمّتی ،روشن فکری ،دور اندیشی اور خود اعتمادی  کے ذریعےسر کیا .اگرہم  ان لوگوں کو آئیڈیل  بناتے ہوے کامل جد و جہد ،متحکم ارادہ ،بلند نگاہ اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو وہ دن ہم سے دور نہیں ہے کہ ہم عالمی برادری میں وہ مقام حاصل کرینگے جو ہمارا حق ہے .لیکن دوستو انگریزی کا یہ جملہ کبھی نہیں بھولے گا ،

“First deserve, then desire”