Wusatullah Khan |
!گلگت بلتستان کی مظلومیت پر وسعت الله خان کا نوحه اسکردو سے خپلو جاتے یا آتے ایک گاؤں پڑتا ہے گول ۔گول یوں کہ یہ گاؤں دائرے کی شکل میں آباد ہے۔میں نے پہلی بار یہ دائرہ انیس سو اٹھانوے میں چقچن کی چوبی مسجد کی زیارت کے لئے خپلو جاتے دیکھا اور دیکھتے ہی فیصلہ کرلیا کہ واپسی پر کچھ دیر کے لئے گول میں گول گول گھوموں گا۔
ان علاقوں میں مہمان چونکہ وضع قطع سے ہی فوراً پکڑا جاتا ہے اس لئے جس مقامی کی نگاہ بھی سب سے پہلے پڑتی ہے وہ کوئی حسب نسب علاقہ جانے بغیر مہمان سے پہلا سوال کرتا ہے کیا آپ نے کھانا کھایا ؟ اگر آپ کہہ دیں کہ ہاں تو پھر دوسرا سوال ہوتا ہے کیا آپ میرے غریب خانے پر چائے پینا پسند کریں گے۔اور آپ اسی ادا پر مر مٹتے ہیں کہ عظیم ترین پہاڑی دیواروں میں بند یہ دیہاتی کیا شستہ اردو بول رہا ہے۔چنانچہ میں نے بھی گول گاؤں کے گول مٹول سے بزرگ حسین کو ہاں کہہ دی اور حسین صاحب کے ساتھ ان کے غریب خانے کی جانب چل پڑا۔چنے ہوئے پتھروں کی تین فٹ اونچی چار دیواری میں چھوٹے سے صحن کے کنارے دو کمرے تھے ۔ایک کمرے میں پڑی اکلوتی چارپائی پر مجھے بٹھا دیا گیا۔ایک بچہ پانی کا جگ اور گلاس لے آیا اور تھما کر غائب ہوگیا۔حسین صاحب زرا دیر میں ایک ٹرے لے آئے جس میں دو چائے بھرے کپ اور ایک طشتری میں خشک خوبانیاں دھری ہوئی تھیں۔
میں نے پوچھا کیا آپ سیاسی ورکر ہیں ؟
کہا نہیں تو ۔۔۔۔
میں نے پوچھا کیا آپ کبھی کسی سیاسی پارٹی میں رہے ہیں
کہا نہیں تو۔۔۔۔
میں نے پوچھا ووٹ کسے دیتے ہیں ؟
کہا کسی خاص امیدوار کو نہیں بس جو اچھا لگے۔
میں نے پوچھا تو پھر اس کمرے میں ایک ہی تصویر کیوں لگا رکھی ہے اور وہ بھی زوالفقار علی بھٹو کی ۔۔۔
کہا یہ سن پچھتر سے لگی ہوئی ہے ۔اور اس پر جو سوکھی پتیوں والا گلاب کا ہار ہے وہ بھی تبھی کا لٹکا رکھا ہے۔
میں نے پوچھا اس کا مطلب ہے آپ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن یا ہمدرد ہیں ۔
کہا نہیں تو ۔بات یہ ہے کہ یہ اب تک کا واحد پاکستانی حکمران ہے جو میرے گاؤں سے گذرتے ہوئے کچھ لمحے ٹھہرا ۔اس لئے میں نے اظہارِ تشکر میں اس کی تصویر لگا لی ۔بس اتنی سی بات ہے۔
یہ بات سن کر میرے آنسو باہر کے بجائے اندر کی جانب دل پر گرنے لگے اور پھر میں نے حسین صاحب سے ادھر ادھر کی ہانکنی شروع کردی۔
آج بھی گلگت اور بلتستان میں چند تبرکی بزرگ زندہ ہیں جنہوں نے یہ علاقہ اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگروں سے چھین کر آزاد کروایا اور پھر پلیٹ میں رکھ کے پاکستان کے حوالے کردیا۔معلوم ہے کیا کیا تھا اس پلیٹ میں ؟
بہتر ہزار نو سو اکہتر مربع کلو میٹر علاقہ ، ہمالیہ ، قراقرم اور ہندو کش ، کے ٹو ، نانگا پربت ، راکا پوشی ، میٹھے پانی کے تین عظیم گلیشیرز ، دریائے سندھ کو دریائے سندھ بنانے والے چھ زیلی دریا اور بیسیوں بلوریں آبی نالے ، تیرہ جنتی جھیلیں ، دنیا کی دوسری بلند ترین سطح مرتفع دیوسائی، پانچ یونیک زبانیں ، تئیس تاریخی قلعے ، ہزاروں برس پرانی انتالیس ہزار چٹانی تحریریں اور انسانی نقوش ، نایاب درند و چرند و پرند ، بادشاہوں کا کھیل پولو ، معدنیات ، پن بجلی کے لامحدود امکانات اور عظیم چین کی جانب کھلنے والی تازہ سرد ہوا دار کھڑکی ۔
مگر ایسی بے لوث سوغات ، بے غرض محبت اور آنکھ بند وفاداری کے عوض کیا ملا اور کیا بدلا ؟ بس اتنا کہ زنجیر بدل گئی ، صاحب بدل گئے اور صاحبوں کے وعدے بھی ، دلاسے بدل گئے ، نسلیں بدل گئیں ، لالی پاپ بدل گئے۔ڈوگرہ دور سے ماری ماری قسمت آج بھی گول جیسے گاؤں میں گول گول گھوم رہی ہے۔ ترکِ وفا یا عہدِ محبت جو چاہو سو آپ کرو
.......اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤ گے