Saturday 31 October 2015

ادُھوری آزادی!

Shujaat Ali Kamal.


آزادی الله کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہے . آزادی حاصل کرنے کے لئے قوموں کو خون کے سمندروں سے گزرنا پڑتا ہے. ایک نسل کی قربانی چاہیے ہوتی ہے .ڈوگرہ راج سے آزادی کی صبح جب ہوئی تو اس کے دامن میں ہزاروں شہیدوں کا لہو شامل تھا ہاں ان باوفا شہیدوں کو یہ معلوم نہ تھا کی انکی شہادت کے بعد یہ آزادی باقی بھی رہیگی یا نہیں ! ارض گلگت بلتستان پہ بسنے والے لاکھوں غیور عوام یکم نومبر کو جشن آزادی گلگت بلتستان مناتے ہیں اور اپنے آبا و اجداد کی قربانیوں پر انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں. اس جنگ آزادی میں بلا رنگ و نسل پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا تھا اور اپنے خوبصورت اور جنّت نظیر علاقے سے دشمن کو بھاگنے پہ مجبور کیا تھا . ہزاروں ماؤں نے اپنے لخت جگر کے صدمے اس کھلتے آزادی کی خاطر برداشت کی تھیں . یقیناً جنگ آزادی کو اپنے آنکھوں سے دیکھنے والوں کی کانوں میں آج بھی ان ماؤں اور بہنوں کی چیخوں کی آوازیں آرہی ہونگی ! ان تمام قربانیوں کا مقصد یہ تھا کی ہم بھی دیگر اقوام عالم کی طرح آزاد فضاؤں میں زندگی گزار سکتے. یہی ہماری نیک نیتی تھی کہ علاقے کا الحاق پاکستان سے کردیا صرف آزادی کے دو ہفتے بعد . تب سے اب تک گلگت-بلتستان کی قوم دو دفعہ جشن آزادی بڑے جوش و خروش سے مناتی چلی آرہی ہے. پاکستان سے بہت محبّت کرنے والے یہاں بستے ہیں. محل وقوع کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو گلگت بلتستان انتہائی اہم مقام پر واقع ہے . شاہراہ قراقرم کے زریعے پاکستان کو چین جیسے با اعتماد دوست سے ملاتا ہے . اٹھائیس ہزار مربع میل پر محیط اس خطّے کی آبادی بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے . اس علاقے کی سرحدیں صوبہ خیبر پختونخواہ ، افغانستان اور بھارت سے ملتی ہیں. قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطّہ پاکستان سے آج بھی اپنے آیینی حقوق ملنے کے منتظر ہے. بہ الفاظ دیگر آزادی دو دفعه مناتے ہیں حقوق یوم آزادی (١٤ اگست) پہ سوگ منانے والوں کے برابر بھی نہیں ! آزادی کے بعد پاکستان سے الحاق کا مطلب یقیناً یہ نہیں تھا کہ اڑ سٹھ سال بعد بھی ہمیں حقوق سے محروم رکھیں. ٢٠٠٩ میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے علاقے کو اپنا پرانا نام لوٹادیا اور گورننس آرڈر کے زریعے کچھ حد تک اس علاقے کی اپنی حیثیت بھال کی اسی آرڈر کے تحت آج بھی یہ خطّہ چل رہا ہے . لوگوں کی حکومت پاکستان سے اس علاقے کو پاکستان کا پانچواں آیینی صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے. یہ مطالبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید طول پکڑا جارہا ہے . سابق وزرے اعظم سمیت موجودہ وزیر اعظم نواز شریف سب نے اس علاقے کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک معاملہ جوں کا توں ہے. علاقے کی قومی اور سینیٹ میں نمائندگی نہ ہونے سے لوگوں میں احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے. پاک-چین اقتصادی راہداری سے پہلے حکومت اس علاقے کی آیینی حیثیت کا تعین کرے تاکہ بھارت کے اعتراضات کا دفاع ہوسکیں. علاقے کی جلد از جلد پارلیمنٹ میں نمائندگی یقینی بنانے میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے. یا یوں کہا جائے کہ جلد از جلد تحریک الحاق پاکستان کو کامیاب بنایا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا. پاکستان کی بڑی جماعتوں کے" نام نہاد صوبائی " عہدیداران سب حقوق کے لئے ایک پلیٹ فارم استعمال کریں اور حکومت سے اس حساس معاملے کو جلد از جلد لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں.